حالیہ دنوں میں دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس میں جو مندی دیکھی گئی ہے، وہ نہ صرف سرمایہ کاروں کے لیے پریشان کن ہے بلکہ معیشت کے بڑے ماہرین کو بھی تشویش میں مبتلا کر چکی ہے۔ امریکہ، یورپ، ایشیا، خلیجی اور ترقی پذیر ممالک کی منڈیاں یکے بعد دیگرے گراوٹ کا شکار ہو رہی ہیں۔ سرمایہ کار اپنی رقوم نکال رہے ہیں، مارکیٹ کا اعتماد کمزور ہو رہا ہے، اور معیشت میں غیر یقینی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر اربوں ڈالر مارکیٹ سے نکل رہے ہیں، اور اس کے اثرات نہ صرف معاشی اشاریوں پر نظر آ رہے ہیں بلکہ عام عوام کی زندگیوں پر بھی محسوس ہو رہے ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری، اور مالی دباؤ بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال نے عالمی میڈیا، ماہرین معاشیات، اور سرمایہ کاروں کو چونکا کر رکھ دیا ہے۔ اس بلاگ میں ہم اس مندی کی وجوہات، دنیا کے مختلف ممالک پر اس کے اثرات اور آئندہ کے خطرات پر تفصیل سے بات کریں گے۔ یہ سب کچھ سادہ انداز میں تاکہ عام قاری بھی سمجھ سکے کہ عالمی مالی نظام میں اس وقت کیا ہو رہا ہے۔
امریکی اقتصادی پالیسیاں اور ان کا عالمی اثر
امریکہ کی اقتصادی پالیسیاں ہمیشہ سے دنیا کے لیے رہنمائی اور دباؤ دونوں کا باعث رہی ہیں۔ حالیہ مہینوں میں امریکی فیڈرل ریزرو نے مسلسل شرح سود میں اضافہ کیا تاکہ اندرونِ ملک مہنگائی پر قابو پایا جا سکے۔ لیکن یہ فیصلہ دنیا بھر کی مالیاتی منڈیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بن گیا۔ جب سود کی شرح بڑھتی ہے تو اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کا رجحان کم ہو جاتا ہے کیونکہ لوگ اپنی رقم بانڈز اور محفوظ اثاثوں میں لگانے لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ، امریکی ڈالر کی قدر میں اضافہ ہونے سے دیگر ممالک کی کرنسیاں دباؤ کا شکار ہو جاتی ہیں، جس سے ان کی مقامی اسٹاک مارکیٹوں پر منفی اثر پڑتا ہے۔ امریکہ کے مالیاتی اداروں کی طرف سے مارکیٹ سے سرمایہ نکالنا بھی مندی کی ایک بڑی وجہ بنا۔ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے شیئرز کی قیمتیں بھی نیچے آئی ہیں، جیسے کہ گوگل، ایپل، مائیکروسافٹ وغیرہ۔ ان کے شیئرز میں کمی دنیا بھر کی سرمایہ کاری کو متاثر کرتی ہے۔
جغرافیائی سیاسی کشیدگی (Geopolitical Tensions)
دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی جغرافیائی کشیدگیاں بھی اسٹاک مارکیٹوں کے لیے زہر قاتل بن چکی ہیں۔ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ نے یورپ میں توانائی کے بحران کو جنم دیا ہے، جس کی وجہ سے یورپی معیشت دباؤ کا شکار ہے۔ اسی طرح مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری تنازع، ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی، شام و لبنان میں بگڑتی صورتحال، اور یمن میں سعودی اتحاد کی عسکری مداخلت، ان سب نے دنیا کو غیر یقینی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ جب بھی دنیا کسی ممکنہ جنگ، حملے یا پابندی کا شکار ہوتی ہے، سرمایہ کار خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور محفوظ راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ان تمام سیاسی تنازعات نے عالمی سرمایہ کاری کا اعتماد ختم کیا ہے۔ خاص طور پر تیل پیدا کرنے والے ممالک میں کشیدگی کے باعث تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ مزید بڑھ گیا ہے، جو اسٹاک مارکیٹ کو عدم استحکام کا شکار کر رہا ہے۔
چین کی سست معیشت اور عالمی طلب میں کمی
چین، جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے اور عالمی سپلائی چین کا مرکز مانا جاتا ہے، اس وقت شدید معاشی سست روی کا شکار ہے۔ چینی معیشت کی ترقی کی رفتار توقعات سے کہیں کم ہو چکی ہے، جس سے دنیا بھر کے کاروباری حلقے متاثر ہو رہے ہیں۔ چین کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں جاری بحران، خاص طور پر دیو ہیکل کمپنیاں جیسے "ایورگرینڈ" اور "کنٹری گارڈن" کا مالیاتی بحران، سرمایہ کاروں کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ اس کے ساتھ ہی، عالمی طلب میں کمی کا مطلب ہے کہ چین کی برآمدات کم ہو گئی ہیں، جس سے مینوفیکچرنگ سیکٹر دباؤ کا شکار ہے۔ چین کے معاشی مسائل سے ان تمام ممالک پر اثر پڑ رہا ہے جو چین سے درآمد و برآمد کا گہرا تعلق رکھتے ہیں، بشمول پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افریقی ممالک، اور حتیٰ کہ امریکہ و یورپ بھی۔
تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ
عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کبھی بلند ترین سطح تک پہنچ رہی ہیں اور کبھی اچانک نیچے گر جاتی ہیں، جس سے توانائی کی عالمی مارکیٹ میں شدید بے یقینی پائی جاتی ہے۔ تیل کی قیمتیں جب 90 ڈالر فی بیرل سے اوپر پہنچیں تو درآمدی ممالک میں مہنگائی کی لہر دوڑ گئی۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ صورتحال بہت پریشان کن ہے کیونکہ ان کی درآمدات کا بڑا حصہ ایندھن پر ہوتا ہے۔ دوسری طرف، جب قیمتیں گرتی ہیں تو تیل پیدا کرنے والے ممالک جیسے سعودی عرب، روس، اور ایران کی آمدنی متاثر ہوتی ہے۔ یہ اتار چڑھاؤ نہ صرف قومی بجٹ بلکہ اسٹاک مارکیٹس کو بھی غیر مستحکم کر دیتا ہے۔ جب تیل کی قیمتوں میں تسلسل نہ ہو تو سرمایہ کاری کی حکمت عملیاں بھی متاثر ہوتی ہیں اور سرمایہ کار غیر یقینی صورتحال سے بچنے کے لیے مارکیٹ سے باہر نکل جاتے ہیں۔
مارکیٹ میں بے یقینی اور بڑے اداروں کی فروخت
جب بڑے سرمایہ کار ادارے مارکیٹ سے سرمایہ نکالتے ہیں تو عام سرمایہ کار بھی خوف کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں panic selling شروع ہو جاتی ہے جس سے مارکیٹ تیزی سے گرتی ہے۔ حالیہ عرصے میں امریکہ، یورپ اور ایشیا میں کئی بڑے اداروں نے اسٹاک مارکیٹ سے اربوں ڈالر نکالے ہیں۔ ان میں mutual funds، hedge funds، اور private equity گروپس شامل ہیں۔ ان کی فروخت نے مارکیٹ میں ایک ایسی لہر چلا دی ہے جو تاحال قابو میں نہیں آ رہی۔ اس بے یقینی کا شکار سب سے زیادہ وہ ممالک ہو رہے ہیں جن کی معیشت کا انحصار غیر ملکی سرمایہ کاری پر ہے، جیسے کہ پاکستان، ترکی، انڈونیشیا اور دیگر ترقی پذیر ریاستیں۔ سرمایہ کار جب خوفزدہ ہوتے ہیں تو وہ رسک لینے سے گھبراتے ہیں، جس کی وجہ سے مارکیٹ میں نئی سرمایہ کاری رک جاتی ہے اور معیشت مزید سست ہو جاتی ہے۔
پاکستان پر اثرات
پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ پہلے ہی کئی معاشی مسائل کا شکار تھی، جیسے کہ کرنسی کی گرتی ہوئی قدر، بڑھتی ہوئی مہنگائی، آئی ایم ایف کے سخت شرائط، اور زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی۔ اب عالمی مندی نے بھی مارکیٹ پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ KSE-100 انڈیکس میں حالیہ دنوں میں تیزی سے گراوٹ دیکھی گئی، جس سے سرمایہ کاروں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے جبکہ مقامی سرمایہ کار بھی غیر یقینی کا شکار ہیں۔ سونے اور ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جو عوامی قوتِ خرید کو کمزور کر رہا ہے۔ درآمدی اشیاء مزید مہنگی ہو گئی ہیں اور مالیاتی ادارے محتاط رویہ اختیار کر رہے ہیں۔ حکومت کی کوششوں کے باوجود معیشت بحالی کے بجائے مزید تناؤ میں جا رہی ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو سخت مالیاتی اصلاحات اور شفاف سرمایہ کاری پالیسی کی ضرورت ہے۔
بھارت کی صورتحال
بھارت کی اسٹاک مارکیٹ دنیا کی پانچویں بڑی مارکیٹ سمجھی جاتی ہے، لیکن حالیہ عالمی مندی سے یہاں بھی گراوٹ دیکھی گئی ہے۔ Sensex اور Nifty جیسے انڈیکسز میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی، خاص طور پر آئی ٹی، بینکنگ اور آٹو سیکٹرز میں۔ تاہم بھارت کی اندرونی معیشت نسبتاً مستحکم ہے اور حکومت کی طرف سے سرمایہ کاری کے سازگار ماحول نے مارکیٹ کو بڑی تباہی سے بچا لیا ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے شرح سود میں اضافہ کرنے کے باوجود مارکیٹ میں توازن رکھنے کی کوشش کی ہے۔ بھارتی کمپنیوں کی strong balance sheets اور بہتر ایکسپورٹ پالیسی بھی سرمایہ کاروں کے لیے اعتماد کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ لیکن اگر عالمی مندی برقرار رہی تو بھارت بھی طویل مدتی دباؤ کا شکار ہو سکتا ہے۔
سعودی عرب کی صورتحال
سعودی عرب کی معیشت کا بڑا انحصار تیل پر ہے، اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ نے سعودی اسٹاک مارکیٹ پر بھی اثر ڈالا ہے۔ Tadawul انڈیکس میں حالیہ دنوں میں کمی دیکھنے کو ملی، لیکن سعودی حکومت کی جانب سے وژن 2030 اور غیر تیل شعبوں میں سرمایہ کاری نے ایک حد تک اعتماد بحال رکھا ہے۔ سعودی عرب نے معیشت کو متنوع بنانے کے لیے کئی منصوبے شروع کیے ہیں، جیسے کہ نیوم سٹی، ٹورازم زون، اور ٹیکنالوجی پارکس۔ اس کے باوجود عالمی سرمایہ کاری کی کمی نے سعودی مارکیٹ کو بھی متاثر کیا ہے۔ اگر سیاسی کشیدگیاں مشرقِ وسطیٰ میں مزید بڑھتی ہیں تو سعودی معیشت پر مزید دباؤ آ سکتا ہے۔
جاپان اور یورپی مارکیٹس
جاپان، جو ایک ترقی یافتہ معیشت ہے، حالیہ عرصے میں اپنی کرنسی ین کی گرتی ہوئی قدر کے باعث مالی دباؤ کا شکار ہے۔ Nikkei 225 میں مسلسل مندی کا رجحان نظر آ رہا ہے۔ جاپانی حکومت اور مرکزی بینک نے مالیاتی آسانیوں کے باوجود مارکیٹ کو سنبھالنے میں مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ دوسری طرف یورپی مارکیٹس جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ، روس یوکرین جنگ، توانائی بحران، اور سخت مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے شدید دباؤ میں ہیں۔ یورپی سینٹرل بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافہ بھی سرمایہ کاری کو متاثر کر رہا ہے۔ اگر یہ صورتحال جاری رہی تو یورپی ممالک کو کساد بازاری کا سامنا ہو سکتا ہے۔
مستقبل کے خدشات
اگر عالمی مالیاتی پالیسیاں سخت ہی رہیں، شرح سود میں مزید اضافہ ہوا، اور سیاسی کشیدگیاں برقرار رہیں تو آئندہ مہینوں میں مارکیٹ کی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک قرضوں کے جال میں پھنس سکتے ہیں، مہنگائی میں اضافہ ہوگا، اور مالیاتی خسارہ مزید بڑھے گا۔ سرمایہ کار مزید محتاط ہو جائیں گے اور نئی سرمایہ کاری کی رفتار سست ہو جائے گی۔ ان حالات میں عالمی معیشت کساد بازاری کے دہانے پر پہنچ سکتی ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور علاقائی مالیاتی اداروں کو چاہیے کہ وہ مشترکہ حکمت عملی اپنائیں تاکہ دنیا ایک بڑے مالیاتی بحران سے بچ سکے۔
دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس کی حالیہ مندی کئی عالمی چیلنجز کا نتیجہ ہے جن میں امریکہ کی سخت مالیاتی پالیسی، جغرافیائی کشیدگی، چین کی سست معیشت، تیل کی قیمتوں میں بے یقینی، اور سرمایہ کاروں کا عدم اعتماد شامل ہیں۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے دنیا کو مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ ہر ملک کو اپنی داخلی پالیسیوں میں شفافیت اور استحکام لانا ہوگا تاکہ سرمایہ کاروں کو اعتماد دیا جا سکے۔ بصورت دیگر، ایک عالمی معاشی بحران ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔
0 Comments