ہیڈ لائنز

مقبوضہ کشمیر میں حالیہ صورتحال، بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور خطے کے امن پر خطرات

 

حالیہ دنوں میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے جو سخت کارروائیاں اور مظالم دیکھنے میں آئے ہیں، اُنہوں نے نہ صرف کشمیری عوام کو ایک بار پھر غم و غصے میں مبتلا کیا ہے بلکہ پوری دنیا میں اس مسئلے کو دوبارہ اجاگر کر دیا ہے۔ ان کارروائیوں میں نہتے کشمیریوں پر گولیاں، گھروں کی مسماری، نوجوانوں کی گرفتاری، اور میڈیا کی سخت پابندیاں شامل ہیں۔


کشمیر میں حالیہ کارروائیاں اور ان کے اسباب

مقبوضہ کشمیر میں حالیہ کارروائیوں کے پیچھے کئی محرکات ہیں۔ بھارتی حکومت اس وقت ملک کے اندرونی سیاسی دباؤ کا سامنا کر رہی ہے، خاص طور پر لوک سبھا انتخابات کے قریب آتے ہوئے۔ مودی سرکار نے ماضی میں بھی کشمیر کی صورتحال کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس بار بھی یہی دیکھا جا رہا ہے کہ کشمیریوں پر ظلم بڑھا کر ہندو قوم پرست طبقے کی حمایت حاصل کی جائے۔


ایک اور بڑا سبب بھارت کی اُس پالیسی کا تسلسل ہے جس کے تحت وہ کشمیر کو کسی بھی قیمت پر مکمل طور پر "ضم" کرنا چاہتا ہے۔ 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد یہ کوششیں اور تیز ہو گئی ہیں۔


مجاہدین کا کردار اور ان کی تحریک کی نوعیت

مقبوضہ کشمیر کے نوجوان آج بھی بھارت کے ظلم کے خلاف لڑنے کو تیار ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر کوئی وقتی جذبہ نہیں بلکہ ایک مسلسل جدوجہد ہے جو کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ کشمیری مجاہدین کا کردار اس تحریک میں ہمیشہ اہم رہا ہے۔ وہ مقامی سطح پر ظلم کے خلاف نہ صرف آواز بلند کرتے ہیں بلکہ مزاحمتی عمل کے ذریعے بھارتی فوج کی کارروائیوں کا جواب بھی دیتے ہیں۔ حالیہ کشیدگی میں بھی کئی مجاہدین نے قربانیاں دیں، جنہیں مقامی عوام نے شہیدوں کے طور پر عزت دی۔


بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور حالیہ کشمیری کارروائیوں سے تعلق

بلوچستان میں گزشتہ کئی سالوں سے بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کی مداخلت کی خبریں عالمی سطح پر آ چکی ہیں۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت پاکستان کے اندر انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ موجودہ حالات میں، بعض ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر میں جاری مظالم بلوچستان میں بھارت کی ممکنہ کارروائیوں کا ردعمل بھی ہو سکتے ہیں۔


پاکستان پر دباؤ بڑھانے اور اسے داخلی طور پر غیر مستحکم کرنے کے لیے بھارت ایسے اقدامات کر سکتا ہے۔ یہ ایک طرح کی "جوابی حکمت عملی" ہو سکتی ہے تاکہ پاکستان کو عالمی سطح پر دفاعی پوزیشن پر لا کر کشمیر پر اس کے بیانیے کو کمزور کیا جا سکے۔


دو ممالک کے درمیان تعلقات کی نازک صورتحال

پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ہمیشہ نازک رہے ہیں، مگر حالیہ واقعات کے بعد کشیدگی میں مزید اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات، سفارتی سطح پر سخت بیانات، اور میڈیا پر جنگی ماحول پیدا کرنا، یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ صورتحال کسی بھی وقت مزید بگڑ سکتی ہے۔


خطے کے امن پر اثرات

جنوبی ایشیا کا خطہ پہلے ہی کئی تنازعات کا شکار ہے۔ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی مزید بڑھی، تو اس کا اثر نہ صرف ان دونوں ممالک پر پڑے گا بلکہ افغانستان، ایران، نیپال اور چین جیسے ہمسایہ ممالک بھی اس سے متاثر ہوں گے۔ خاص طور پر چین کے ساتھ بھارت کے سرحدی تنازع اور سی پیک میں بلوچستان کی اہمیت اس معاملے کو اور پیچیدہ بنا دیتی ہے۔


عالمی برادری کا کردار اور خاموشی

افسوس کی بات یہ ہے کہ عالمی طاقتیں کشمیری عوام کے دکھ پر یا تو خاموش ہیں یا محض بیانات تک محدود ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں آج بھی فائلوں میں بند ہیں، اور کشمیریوں کی قربانیاں روز بڑھ رہی ہیں۔ اگر عالمی برادری نے اب بھی کردار ادا نہ کیا تو خطے میں ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔


نتیجہ:

کشمیر کی حالیہ صورتحال، بلوچستان میں بھارتی مداخلت، اور پاکستان و بھارت کے درمیان بڑھتی کشیدگی ایک خطرناک موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ ایسے میں صرف ایک ہی حل ہے، کہ عالمی برادری فوری اور غیر جانبدار کردار ادا کرے۔ دوسری طرف، کشمیری عوام کی جدوجہد کو دبانا ممکن نہیں۔ ظلم جتنا بڑھتا ہے، مزاحمت بھی اتنی ہی شدید ہو جاتی ہے۔


یہ وقت ہے کہ پاکستان اپنی سفارتی کوششیں مزید مضبوط کرے اور دنیا کو بتائے کہ مسئلہ کشمیر صرف ایک زمینی تنازع نہیں بلکہ ایک انسانیت کا مسئلہ ہے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب جنوبی ایشیا کا امن مکمل طور پر داؤ پر لگ جائے گا۔

0 Comments

کومنٹس

Type and hit Enter to search

Close