فلسطین کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ یہ سرزمین تین بڑے مذاہب—اسلام، عیسائیت اور یہودیت—کی جنم بھومی رہی ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں فلسطین عثمانی سلطنت کا حصہ تھا، مگر پہلی جنگِ عظیم کے بعد یہ برطانیہ کے زیرِ انتظام آیا۔ برطانوی مینڈیٹ کے تحت یہاں صہیونیوں کی آبادکاری کو فروغ دیا گیا۔
1947 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا، جسے عربوں نے مسترد کیا۔ 1948 میں اسرائیل نے یک طرفہ طور پر ریاست کا اعلان کر دیا، اور اس کے نتیجے میں نکبہ یعنی فلسطینیوں کا "عظیم سانحہ" وقوع پذیر ہوا، جس میں تقریباً 8 لاکھ فلسطینی اپنے گھروں سے بے دخل ہو گئے۔
نکبہ صرف ایک ہجرت نہیں تھی، بلکہ ایک نسل کے خوابوں کا خون تھا۔ آج بھی لاکھوں فلسطینی دنیا بھر کے پناہ گزین کیمپوں میں اپنی زمین واپسی کا انتظار کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (UNRWA) کے مطابق، فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد 6 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔
اسرائیلی پالیسیوں نے زمین کی زبردستی خریداری، جبری قبضے، اور مسلح کارروائیوں کے ذریعے فلسطینی شناخت کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن فلسطینی قوم نے ہر دور میں اپنی مزاحمت، ثقافت اور تشخص کو برقرار رکھا ہے۔
قانونی حیثیت: عالمی برادری کی حمایت
1988 میں فلسطینیوں نے باقاعدہ طور پر اپنی ریاست کے قیام کا اعلان کیا، جسے اب تک 147 ممالک تسلیم کر چکے ہیں، جن میں چین، روس، بھارت، پاکستان، ترکی اور کئی افریقی و لاطینی امریکی ممالک شامل ہیں۔
2012 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو "غیر رکن مبصر ریاست" کا درجہ دیا۔ اگرچہ فلسطین مکمل رکن نہیں، لیکن وہ بین الاقوامی اداروں جیسے کہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (ICC) اور یونیسکو (UNESCO) کا حصہ بن چکا ہے۔
فلسطینی ریاست کا قیام اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں، خاص طور پر قرارداد 242 (1967) اور قرارداد 338 (1973) کے مطابق قانونی طور پر جائز اور ضروری ہے۔
ان قراردادوں میں واضح طور پر اسرائیل سے مقبوضہ علاقوں سے انخلاء اور مشرق وسطیٰ میں منصفانہ امن کے قیام کی بات کی گئی ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف نے بھی 2004 میں اسرائیلی دیوارِ حائل کو غیر قانونی قرار دیا۔
اس کے باوجود، اسرائیل نے نہ صرف ان قراردادوں کو تسلیم نہیں کیا بلکہ بین الاقوامی قانون کی مسلسل خلاف ورزی جاری رکھی ہے۔ یہ بین الاقوامی انصاف کے نظام کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔
انسانی حقوق: ایک قوم کی محرومی
آج فلسطینی قوم ایک کھلی جیل میں زندگی گزار رہی ہے۔ غزہ کی پٹی تقریباً 17 سال سے محاصرے میں ہے جہاں:
80 فیصد آبادی کو انسانی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
بجلی دن میں صرف 4 سے 6 گھنٹے دستیاب ہوتی ہے۔
اسرائیلی فضائی حملوں میں ہزاروں اسکول، اسپتال اور رہائشی عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔
مغربی کنارے میں اسرائیلی چیک پوسٹس، بستیاں اور دیوارِ حائل نے فلسطینیوں کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا ہے۔ فلسطینی بچوں کو اسکول جانے کے لیے روزانہ کئی کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے۔
یونیسف کی رپورٹ کے مطابق، ہر سال سینکڑوں فلسطینی بچے اسرائیلی حراست میں لیے جاتے ہیں، جنہیں بغیر کسی فردِ جرم کے مہینوں قید رکھا جاتا ہے۔ یہ صرف بچوں کے بنیادی حقوق کی پامالی نہیں بلکہ عالمی انسانی حقوق کی توہین ہے۔
فلسطینی عورتیں صحت کی سہولیات سے محروم ہیں، جب کہ بزرگ اور بیمار افراد کو بھی چیک پوسٹوں پر سختیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل پر نسل پرستی (Apartheid) کے نظام کو اپنانے کے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔
علاقائی استحکام: مشرق وسطیٰ میں امن کی کنجی
مشرق وسطیٰ میں اسرائیل-فلسطین تنازعہ کئی دیگر علاقائی تنازعات کو جنم دیتا ہے۔ اگر فلسطین کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے تو:
عرب دنیا اور مغرب کے درمیان اعتماد کی فضا قائم ہو سکتی ہے۔
ایران، سعودی عرب اور دیگر ریاستوں کے درمیان تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں۔
دہشت گردی اور انتہاپسندی کے بیانیے کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ لبنان، شام اور مصر جیسے ممالک میں بھی اس تنازعے کے اثرات محسوس کیے جاتے ہیں۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد ان ممالک کے وسائل پر دباؤ ڈالتی ہے۔
اگر ایک مستحکم فلسطینی ریاست قائم ہوتی ہے، تو یہ پورے خطے میں سرمایہ کاری، تعلیم اور ٹیکنالوجی کے نئے دروازے کھول سکتی ہے۔
اقتصادی ترقی اور نوجوانوں کے روزگار میں اضافے کے ذریعے شدت پسندی کو بھی مؤثر طریقے سے روکا جا سکتا ہے۔
دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ فلسطین کا امن صرف فلسطینیوں کے لیے نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے بھی لازم ہے۔
بین الاقوامی سیاست: عالمی ضمیر کا امتحان
اگرچہ امریکہ اور چند یورپی ممالک دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں، مگر عملاً ان کی پالیسیز اسرائیل کو غیر مشروط حمایت دیتی ہیں۔ امریکہ نے اب تک اقوام متحدہ میں 45 سے زائد بار ویٹو استعمال کیا تاکہ اسرائیل کے خلاف کسی قرار داد کو منظور نہ کیا جا سکے۔
دوسری طرف، یورپی یونین نے حالیہ برسوں میں فلسطینی اداروں کو اربوں یوروز کی امداد دی ہے، مگر مکمل سیاسی حمایت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری کے کردار پر سوالیہ نشان کھڑے ہو چکے ہیں۔
یہی دوہرا معیار مغربی ممالک کی اخلاقی قیادت کو کمزور کرتا ہے۔ جب یوکرین پر حملہ ہو تو عالمی ردعمل تیز ہو جاتا ہے، مگر فلسطینیوں پر بم برسائے جائیں تو خاموشی چھا جاتی ہے۔
میڈیا کا کردار بھی متنازع رہا ہے، جہاں فلسطینی مظلوموں کو اکثر "دہشت گرد" کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بیانیہ نہ صرف حقائق کو مسخ کرتا ہے بلکہ مظلوموں کی آواز کو دباتا ہے۔
بین الاقوامی عدالتوں اور اداروں کو اب فعال کردار ادا کرنا ہوگا، ورنہ عالمی انصاف ایک دھوکہ بن کر رہ جائے گا۔
ایک آزاد فلسطینی ریاست کیوں ناگزیر ہے؟
ایک آزاد فلسطینی ریاست کے بغیر
مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن ممکن نہیں۔
عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی ساکھ متاثر ہوتی رہے گی۔
لاکھوں فلسطینیوں کے انسانی حقوق پامال ہوتے رہیں گے۔
فلسطینیوں کو ان کے تاریخی، اخلاقی اور قانونی حق سے محروم رکھنا، صرف ایک قوم پر ظلم نہیں بلکہ انسانیت پر حملہ ہے۔ دنیا بھر کے انسان دوست، دانشور، صحافی، اور نوجوان اب اس مطالبے میں یک زبان ہو چکے ہیں کہ "فلسطین کو آزادی دو!"
یہ وقت ہے کہ دنیا صرف بیانات نہ دے، بلکہ عملی اقدام کرے۔ انصاف، امن اور انسانی وقار کا تقاضا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کا حق دیا جائے۔
فلسطینی ریاست کا قیام نہ صرف مظلوموں کے حق میں انصاف ہے بلکہ عالمی امن، عدل اور بقائے باہمی کی بنیاد ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا ایک بہتر اور محفوظ جگہ بنے، تو ہمیں فلسطین کی آزادی کے حق میں کھڑا ہونا ہوگا—ابھی اور ہمیشہ کے لیے۔
0 Comments