ہیڈ لائنز

پاکستانی کرکٹ: بربادی کا ذمے دار کون حل کیا ہے ؟

 


کبھی پاکستانی کرکٹ دنیا کی سب سے خطرناک اور غیر متوقع ٹیم سمجھی جاتی تھی۔ وسیم اکرم کی سوئنگ، وقار یونس کی یارکر، سعید انور کی دلکش بیٹنگ، انضمام الحق کی مزاحمت اور شاہد آفریدی کی دھواں دار اننگز کسی بھی حریف ٹیم کو پریشان کر سکتی تھیں۔ ان کھلاڑیوں کے دور میں پاکستانی کرکٹ کا دنیا بھر میں ایک خاص مقام تھا اور اس کی ٹیم کا ہر میچ کے دوران کھیل کا معیار بہت بلند ہوتا تھا۔ اس وقت پاکستان کرکٹ کو عالمی سطح پر ایک عزت دی جاتی تھی اور اس کی جیت سے دنیا کے بڑے کرکٹ کھیلنے والے ممالک خوفزدہ رہتے تھے۔ لیکن آج وہی پاکستان کرکٹ مسلسل شکستوں کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ ورلڈ چیمپئن رہنے والی یہ ٹیم آج معمولی ٹیموں کے خلاف بھی بے بس نظر آتی ہے۔ جب تک پاکستان کا کرکٹ سسٹم بہتر نہیں ہوتا، تب تک یہ صورت حال بدستور رہے گی۔ ہر میچ میں شائقین جیت کی امید لے کر بیٹھتے ہیں، لیکن نتیجہ وہی پرانی مایوسی نکلتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیا قسمت ہمارے خلاف ہے، یا ہم خود اپنی ناکامی کے ذمہ دار ہیں؟


پاکستانی کرکٹ زوال کا شکار کیوں ہوئی؟


پاکستانی کرکٹ کے زوال کی سب سے بڑی وجہ مضبوط سسٹم کا نہ ہونا ہے۔ دیگر ممالک جیسے بھارت، آسٹریلیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ نے اپنی کرکٹ کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ ان کے پاس ایک مضبوط ڈومیسٹک کرکٹ سسٹم ہے، جہاں نئے کھلاڑیوں کو صحیح طریقے سے تیار کیا جاتا ہے اور ان کی مکمل کارکردگی کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں پر سلیکشن کا عمل مکمل طور پر متنازع ہے، جہاں کھلاڑیوں کی کارکردگی کی بجائے سفارش اور سیاسی تعلقات ہی اہمیت رکھتے ہیں۔ ڈومیسٹک کرکٹ کے حالات بھی برے ہیں، میرٹ کی جگہ سفارش نے لے لی ہے، اور کھلاڑیوں کو جدید کرکٹ کے مطابق تیار کرنے کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔ پاکستانی ٹیم میں جو کھلاڑی آتے ہیں، ان کے بارے میں ہمیشہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں کہ آیا وہ سلیکشن کمیٹی کی نظر سے گزرتے ہیں یا محض کچھ اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کے دباؤ کی وجہ سے انہیں منتخب کیا گیا ہے۔ سلیکشن کا عمل بھی ہمیشہ متنازع رہا ہے۔ ایسے کھلاڑی جن کا کوئی بیک گراؤنڈ نہیں، وہ محض سفارش کی بنیاد پر ٹیم میں آ جاتے ہیں، جبکہ باصلاحیت نوجوان مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ کھلاڑی میدان میں اترتے ہیں تو دباؤ برداشت نہیں کر پاتے اور معمولی ٹیموں کے خلاف بھی ناکام ہو جاتے ہیں۔


کمزور کپتان اور فیصلہ سازی کی کمی


پاکستان میں کرکٹ کی قیادت ایک مشکل اور پیچیدہ کام بن چکی ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستان کے کپتان میدان میں خود فیصلے کرتے تھے اور نڈر قیادت دکھاتے تھے، لیکن آج کے کپتان اکثر کمزور اور بے بس نظر آتے ہیں۔ انہیں اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، اور اکثر انہیں بورڈ یا دیگر انتظامیہ کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹیم سلیکشن میں ان کا کوئی اختیار نہیں، اور اگر کوئی دبنگ کپتان آ بھی جائے، تو اسے اندرونی سیاست اور کرکٹ بورڈ کے فیصلوں کی وجہ سے چلنے نہیں دیا جاتا۔ ان حالات میں کھلاڑیوں کو حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی کمی کا سامنا ہوتا ہے۔ ایسے میں جب ٹیم مشکل صورتحال میں ہوتی ہے، تو کپتان کو کوئی سمجھ نہیں آتا کہ کیا کرے، اور اس کے فیصلے اکثر غلط ثابت ہوتے ہیں۔ یہ مسئلہ کسی ایک کپتان کا نہیں، بلکہ کئی سالوں سے چلا آ رہا ہے۔ دنیا کی کامیاب ٹیموں کے کپتان میدان میں مضبوط فیصلے کرتے ہیں، لیکن پاکستانی کپتان زیادہ تر میدان میں کنفیوژن کا شکار نظر آتے ہیں، جس کا نتیجہ شکست کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی کرکٹ میں کمزور فیصلہ سازی کے باعث مسلسل ناکامی کا سامنا ہے۔


فٹنس اور جدید کرکٹ سے دوری


آج کی کرکٹ صرف بیٹ اور بال کا کھیل نہیں رہا، بلکہ یہ ایک مکمل سائنس بن چکی ہے۔ کامیاب ٹیمیں اپنے کھلاڑیوں کی فٹنس، مہارت، ذہنی مضبوطی اور جدید ٹیکنالوجی پر کام کرتی ہیں۔ دنیا کی تمام بڑی کرکٹ ٹیمیں اپنے کھلاڑیوں کی فٹنس پر خاص توجہ دیتی ہیں اور انہیں عالمی سطح پر بہترین کارکردگی کے لئے تیار کرتی ہیں۔ کھلاڑیوں کی کارکردگی کا مکمل ڈیٹا رکھا جاتا ہے، ویڈیو اینالسس کے ذریعے ان کی خامیوں کو بہتر بنایا جاتا ہے، اور ان کی فٹنس کو عالمی معیار کے مطابق رکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ زیادہ تر کھلاڑیوں کی فٹنس کمزور ہے، وہ پورا میچ کھیلنے سے پہلے ہی تھک جاتے ہیں، اور بار بار انجری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ٹیم کے پاس جدید ڈیٹا اینالسس کا کوئی مؤثر نظام نہیں، جس کی وجہ سے مخالف ٹیمیں آسانی سے ہماری کمزوریوں کا فائدہ اٹھا لیتی ہیں۔ کھلاڑیوں کو جدید کرکٹ کے لئے ذہنی طور پر مضبوط بنانے کے لیے کوئی مؤثر ٹریننگ نہیں دی جاتی۔ پاکستانی کرکٹ اب بھی پرانے روایتی انداز میں کھیلی جا رہی ہے، جبکہ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے۔ فٹنس کی کمی اور جدید ٹیکنالوجی سے دوری کی وجہ سے پاکستان کرکٹ دیگر ٹیموں کے مقابلے میں مسلسل پیچھے رہ جاتی ہے۔


پاکستانی کرکٹ کو کیسے بچایا جا سکتا ہے؟


اگر پاکستان کو دوبارہ کرکٹ کی دنیا میں ایک بڑی قوت بنانا ہے، تو سب سے پہلے سفارشی اور نالائق کھلاڑیوں کو باہر نکالنا ہوگا۔ صرف ان کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا جائے جو واقعی کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ ڈومیسٹک کرکٹ کو مضبوط کیا جائے، تاکہ نیا ٹیلنٹ میرٹ پر اوپر آئے اور اس کا درست استعمال کیا جا سکے۔ کپتان کو مکمل اختیار دیا جائے، تاکہ وہ دباؤ کے بغیر اپنی مرضی کے فیصلے کر سکے اور ٹیم کو درست سمت دے سکے۔ کھلاڑیوں کی فٹنس اور مہارت پر سخت محنت کی جائے، تاکہ وہ دنیا کی کسی بھی ٹیم کے خلاف کھیلنے کے قابل ہو سکیں اور اپنے ملک کا نام روشن کر سکیں۔ جدید ٹیکنالوجی، ڈیٹا اینالسس، اور ویڈیو مانیٹرنگ کو سسٹم کا لازمی حصہ بنایا جائے، تاکہ ہر کھلاڑی کی کارکردگی کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکے۔ جب تک ہم اپنی کرکٹ کو جدید تقاضوں کے مطابق نہیں ڈھالیں گے، تب تک شکست ہمارا مقدر بنی رہے گی۔ کھلاڑیوں کی ذہنی تربیت اور ان کے اعتماد کو بڑھایا جائے تاکہ وہ میدان میں اپنے فیصلے خود لے سکیں اور مشکل حالات میں بھی اپنے آپ کو ثابت کر سکیں۔ یہ وقت محض افسوس کرنے کا نہیں، بلکہ عملی اقدامات کرنے کا ہے، ورنہ وہ دن دور نہیں جب پاکستانی کرکٹ کا حال بھی ہاکی جیسا ہو جائے گا۔

0 Comments

کومنٹس

Type and hit Enter to search

Close