پاکستان کی سیاست میں طوفان آئے دن اٹھتے ہیں، کبھی دھواں نظر آتا ہے، تو کبھی آگ بجھانے کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں۔ ایک بار پھر مذاکرات کا کھیل جاری ہے، اور اس بار کھلاڑی وہی پرانے ہیں: حکومت، تحریکِ انصاف، اور کہیں نہ کہیں اسٹیبلشمنٹ۔ عمران خان اپنے سیاسی میدان میں مقدمات کی گٹھڑی اٹھائے کھڑے ہیں، جبکہ حکومت ان کے لیے ایک نیا جال بناتی دکھائی دے رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ مذاکرات عمران خان کے لیے کسی ریلیف کا سبب بنیں گے یا ایک اور دھوکہ ثابت ہوں گے؟ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستانی سیاست میں مذاکرات عموماً وقت گزاری یا عوام کو دھوکہ دینے کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔ تاریخ میں کئی مرتبہ دیکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں، مگر عوام کو ہمیشہ بے یقینی کی کیفیت میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
تصور کریں: عمران خان ایک سیاسی جنگجو کے طور پر میدان میں اترتے ہیں، ان کے خلاف مقدمات کی بھرمار، ساتھیوں کی گرفتاری، اور پارٹی پر دباؤ۔ لیکن وہ کسی طور ہار ماننے کو تیار نہیں۔ ان کے حامی ان مذاکرات کو روشنی کی کرن کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حکومت واقعی عمران خان کے لیے کوئی رعایت دینے کے حق میں ہے؟ یا یہ سب عوام کو مطمئن کرنے کی ایک چال ہے؟ حکومت کا رویہ کہیں نہ کہیں اشارہ دے رہا ہے کہ مذاکرات صرف ایک وقتی حربہ ہیں، تاکہ وہ اپنی پوزیشن مضبوط کر سکے۔ لیکن یہاں یہ بھی غور طلب ہے کہ اگر حکومت واقعی سنجیدہ نہیں تو یہ مذاکرات کیوں کر رہی ہے؟ کیا وہ عوامی دباؤ سے گھبرا چکی ہے یا اس کے پاس سیاسی استحکام کا کوئی اور منصوبہ نہیں؟ دوسری طرف، تحریکِ انصاف کے کارکنوں میں امید اور بے چینی کا ملا جلا ردعمل پایا جاتا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ مذاکرات نہ صرف پارٹی بلکہ عوام کے لیے بھی اہم ہیں۔
یہاں ایک اور سوال اٹھتا ہے: کیا عمران خان بھی ان مذاکرات کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں؟ ان کے حالیہ بیانات اور تقریریں کچھ اور ہی کہانی سناتی ہیں۔ وہ حکومت پر شدید تنقید کرتے ہیں، اپنے کارکنوں کو پرجوش رکھتے ہیں، اور ساتھ ہی عوام کو یہ باور کراتے ہیں کہ وہ کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیاست میں کبھی کچھ بھی یقینی نہیں ہوتا۔ شاید ان مذاکرات کے ذریعے وہ اپنی سیاسی بقا کے لیے کوئی نیا راستہ تلاش کر رہے ہوں۔ دوسری جانب، عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں بھی اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ مذاکرات کو کس حد تک سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ کچھ رہنما سمجھتے ہیں کہ یہ وقت سیاست سے زیادہ حکمتِ عملی اپنانے کا ہے، جبکہ دیگر رہنما مذاکرات کو تحریکِ انصاف کی کمزوری سمجھتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں ایک پہلو ہمیشہ سے موجود رہا ہے، اور وہ ہے اسٹیبلشمنٹ کا کردار۔ جب سیاست دان ناکام ہو جاتے ہیں، تو کہیں نہ کہیں سے کوئی "غیر مرئی ہاتھ" انہیں ایک میز پر لے آتا ہے۔ کیا اس بار بھی یہی ہو رہا ہے؟ قیاس آرائیاں ہیں کہ پسِ پردہ طاقتور حلقے "بگ ڈور ڈپلومیسی" کے ذریعے سیاسی تنازع کو سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن کیا یہ مذاکرات اسٹیبلشمنٹ کے بغیر ممکن ہیں؟ شاید نہیں، کیونکہ پاکستان کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ بڑے فیصلے ہمیشہ بند دروازوں کے پیچھے ہوتے ہیں۔ اگر ہم ماضی کے سیاسی بحرانوں کو دیکھیں، تو واضح ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ فیصلوں کا مرکزی کردار رہی ہے۔ اس کے علاوہ، موجودہ حالات میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار معیشت، خارجہ پالیسی، اور سلامتی کے امور سے جڑا ہوا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ سیاسی عدم استحکام کو کسی بھی قیمت پر جاری نہیں رہنے دینا چاہتی۔
حکومت کی مذاکرہ ٹیم پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ کیا یہ ٹیم واقعی سنجیدہ ہے یا محض ایک دکھاوا؟ تحریکِ انصاف کے رہنما کہتے ہیں کہ حکومت کی نیت صاف نہیں، جبکہ حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ بحران کو حل کرنا چاہتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب تک ان مذاکرات کا کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ عوام یہ سب دیکھ رہے ہیں اور مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر یہ ٹیم واقعی غیر سنجیدہ ہے، تو حکومت کس بنیاد پر مذاکرات کو آگے بڑھا رہی ہے؟ کیا اس کا مقصد صرف وقت خریدنا ہے، یا یہ مذاکرات عوام کے دباؤ کو کم کرنے کی ایک حکمتِ عملی ہیں؟ دوسری طرف، عوام کا دباؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے، جو یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا ان کے مسائل کا حل نکل سکے گا۔
یہ مذاکرات اگر ناکام ہوئے تو ان کا اثر صرف سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں رہے گا۔ عوام کا اعتماد مجروح ہوگا، معیشت مزید دباؤ کا شکار ہوگی، اور سیاسی استحکام ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔ عمران خان کے لیے ریلیف ممکن ہے، لیکن اس کے لیے شاید انہیں اپنے موقف میں نرمی لانی پڑے۔ حکومت کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ طاقت کے کھیل میں ہمیشہ جیت ممکن نہیں۔ ماضی کی مثالیں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ جب مذاکرات ناکام ہوتے ہیں، تو عوام کا اعتماد سیاسی نظام پر سے اٹھ جاتا ہے، جس کا نتیجہ عدم استحکام کی صورت میں نکلتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں عوام پہلے ہی مسائل کا شکار ہیں، یہ صورتحال مزید نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
کہانی کا آخری نکتہ یہ ہے: سیاست میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی۔ یہ مذاکرات کامیاب ہوں یا ناکام، پاکستان کی سیاست کا کھیل وہیں جاری رہے گا جہاں سے یہ شروع ہوا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا عوام اس کھیل کا حصہ بننے کو تیار ہیں یا صرف تماشائی بنے رہیں گے؟ اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں، تو یہ ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم موڑ ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر ناکام ہوئے، تو اس کا بوجھ صرف سیاست دانوں پر نہیں، بلکہ پورے نظام پر ہوگا۔
0 Comments